Saturday 22 February 2014

: ایڈیٹر کی رائے

بلاگ پر دی گئی تمام تر رائے ذاتی اظہار خیال ہے ۔اور اس رائے کا اظہار کسی بھی طبقہ فکر کے لوگوں پر تنقید یا مخالفت کرنا مقصود نہ ہے بلکہ ہر شخص اپنے ذاتی اظہار خیال کا جس طرح بنیادی حق رکھتا ہے اسی طرح میں اس بلاگ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے صرف اپنی ذاتی رائے جو کہ میرے نزدیک بہتر ہے کو پیش کروں گا۔ بلاگ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والوں کی رائے کا خیر مقدم کیا جائے گا ۔ اور اس پر کسی قسم کی فرقہ واریت کو ہرگز پروان نہ دی جائے گی

 23/02/2014

آج کل میڈیا پر اسلامی تعلیم اور فکر کے پروگرامز باقاعدگی سے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ جس میں معروف گلوکار، میراثی ، قوال ،سکالرز اور اینکر پرسن اپنے ذاتی خیالات اور نظریات کے تناظرمیں اسلامی تعلیم اور تفکرات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ براہ راست پوری دنیا میں اس کو پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ان تمام پروگرامز میں کوئی بھی گلوکار، میراچی ،قوال یا سکالرز قرآن و سنت کی کتابوں کو سامنے رکھ کر کسی بھی تاریخی واقعات کی بات حوالہ سے نہیں کرتا ۔ اور اسلامی نظریات کو فلسفانہ انداز میں بیان کرتے ہیں اور اسلامی نظریات کو فلسفہ کی نظر اس حد تک بیان کیا جاتا ہے کہ لوگوں کو یہ یقین محکم دلایا جاتا ہے کہ دین اسلام نعوذباللہ صرف قرآن و سنت میں ہی نہیں ہے بلکہ ،قوال،میراثی اور سکالرز کے جدید خیالات اور نظریات کے مطابق ہو گیا ہے (نعوذ باللہ من ذالک)۔

میڈیا پر روز بروز بڑھتے ہوئے ان پروگراموں میں جہاں گلوکار، میراثی ،قوال اور سکالرز کو دین اسلام کی تعلیم دیتے ہوئے اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہی لوگ جید علماء کرام ہیں اور انہی لوگوں کو صحیح اسلام کے نظریات اور عقائد کا علم ہے اور یہ لوگ اپنی ذاتی رائے کے مطابق خوب اسلامی نظریات کو قرآن و سنت سے ہٹ کر براہ راست میڈیا پر پیش کرتے ہیں اور کوئی جید عالم اور مبلغ ان کو روکنے اور پوچھنے والا نہیں ۔ کیا یہ خدا نخواستہ تبلیغ دین اسلام میں سستی اور کوتاہی تو نہیں کہ جید علماء کرام میڈیا پر آنے والے گلوکار،میراثی ،قوال اور دنیاوی سکالرز کے سامنے کیوں نہیں آتے اور ایسے ٹی وی چینلز کے پروڈوسیرز اور ہدایتکار وں کے خلاف عدالتی کارروائی کیوں نہیں کرتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اور دستور کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کا کہا گیا ہے ۔ اور نت نئے پروگرامز میں موسیقی ، گانے ،طنز ومزاح کے طور پرپنی ذاتی اداکاری کو اسلامی افکارکے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے اسلامی خیالات،نظریات اور فکار اس کی اجازت دیتے ہیں اور کوئی انسان جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور ان کو لگام نہیں ذالتا۔
ایک ٹی وی پروگرام میں ایک میراثی ڈھول ،تبلہ،بانسری اور منہ میں گندا پان ڈالے یہ کہتا ہے کہ مُلا تو جنازہ پڑھا اور اپنا کام کر میں جو بھی کروں یہ میرا اور میر ا اللہ کا آپس کا معاملہ ہے ۔ ٹھیک ہے کہ انسان کے نیک اور بد اعمال کا معاملہ اللہ نے قیامت کے روز حل کرنا ہے ۔ لیکن کیا اب تبلیغ اسلام کی کیا کوئی ضرورت نہیں رہی ان میراثیوں کے نزدیک تو یہ کم ازکم اسلامی نظریات اور افکار کو خود تو نہ پیش کریں اللہ کے غضب سے یہ لوگ فی الحال نہیں ڈر رہے لیکن آنے والا وقت قیامت کی ہولناکی، اسلامی تعلیما ت صرف اور صرف قرآن وسنت میں ہیں یا جید علماء کرام کی رائے کو اسلامی تناظر میں درست قرار دیا جاسکتا ہے لیکن آج کا یہ میراثی ،گلوکار، قوال اور دنیاوی سکالرز کو کیا اختیار ہے کہ وہ قرآن وسنت کو سامنے رکھے بغیر ہی اپنے ذاتی خیالات، فلسفیانہ، مشرکانہ،خرافات کو اسلامی نظریات کہتا ہے اور یہاں تک کہ  متنازعہ واقعات کو میڈیا پر اتنی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا جاتاہے۔کیوں ایسے لوگ براہ راست ٹی وی پروگرامز پر آکر ایسے واقعات کو اسلامی نظریات اور تعلیمات کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔ اگر اب بھی جید علماء کرام سستی اور کوتاہی کریں گے تو پھر اسلامی عقائد، نظریات ،افکار کو یہی میراثی ، گلوکار، قوال اور برٹش ،امریکن سکالرز ہی بیان کریں گے اور مُلا صرف نماز جناہ پڑھائیں اور اپنا کام کریں جیسے ایک میراثی نے براہ راست ٹی وی پروگرام میں کہا ۔